رابطہ عالم اسلامی نے اسلامی ممالک کی نیوز ایجنسیوں کی یونین کےاراکین اور نامور عالمی ایجنسیوں اور معروف مذہبی اور سفارتی شخصیات کو جمع کیا

مسئلہ فلسطین سے متعلق جانبداری اور غلط رپورٹنگ کے خلاف  وسیع تر بین الاقوامی میڈیا یکجہتی کا اظہار:
رابطہ عالم اسلامی نے اسلامی ممالک کی نیوز ایجنسیوں کی یونین کےاراکین اور نامور عالمی ایجنسیوں اور معروف مذہبی اور سفارتی شخصیات کو جمع کیا۔

ظاہری قانون سازی اور عمل درآ مد میں التوا کی وجہ سے،نفرت کا رجحان وبا کی  شکل اختیار کرچکا ہے اور اس کے سدّباب کے لئے میڈیاکا اہم کردار ہے۔ڈاکٹر العیسی

آج ہمیں غزہ میں معصوم بچوں،خواتین اور دیگر لوگوں پر مجرمانہ اور وحشیانہ حملوں کی صورت میں جو کچھ نظرآرہاہے، یہ پوری انسانیت کے ماتھے پر ایک داغ ہے۔۔ڈاکٹر العیسی

نفرت انگیزبیانئے کا مقابلہ معاشروں کے امن وسلامتی کے تحفظ اور اقوام کےدرمیان دوستی کے فروغ میں سرفہرست ہے۔ڈاکٹر العیسی

نفرت اپنی بدترین اور کریہہ صورت میں دوہرے معیارات میں ایسے نمونوں میں نمودار ہوئی جو  تاویل اور چال بازی سے آگے بڑھ کر  چیلنج اور تکبر تک پہنچ گئی ہے۔ڈاکٹر العیسی

رابطہ کی چھتری تلے جمع امت کے علمائے کرام اور  مفکرین کی جانب سے ہم مسئلہ فلسطین کے لئے کی جانی والی  کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جن میں  مملکت سعودی عرب کی قیادت میں  متعدد تاریخی سربراہ اجلاس اور خصوصی امدادی مہم  سرفہرست ہیں۔ڈاکٹر العیسی

مسئلہ فلطسین کے حوالے سے میڈیا میں   فلسطینی بیانئے کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلسطینی وزیر العساف

میڈیا کا بنیادی مقصد لوگوں میں رواداری،انصاف اور محبت کی ثقافت کو پھیلاناہے۔بحرانوں  کا خاتمہ،تنازعات ،نفرت اور معاشروں کی تقسیم   کو ہوا دینے سے بچاناہے۔  العساف

جدہ(یونا)
رابطہ عالم اسلامی نے   عالمی فورم:”نفرت اور تشدد کو ہوا دینے میں میڈیا اور اس کا کردار:غلط معلومات اور جانبداری کے خطرات“ میں  57 ممالک کی اسلامی ممالک کی نیوز ایجنسیوں کی یونین اور ایشیا،یورپ اور امریکہ سے تعلق رکھنے والی نامور بین الاقوامی نیوز ایجنسیوں کو جمع کیا۔میڈیا میں جانبداری اور گمراہ کن معلومات    خصوصاً مسئلہ فلطسین کے حوالے سے غلط رپورٹنگ کے خلاف یہ نمایاں عالمی یکجہتی تقریب تھی۔
مملکت سعودی عرب کے شہر جدہ میں اس فورم کاافتتاح ہوا  جس کی سرپرستی رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور چیئرمین مسلم علماء کونسل عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی اور ریاست فلطسین میں سرکاری میڈیا کے سپروائزر وزیر احمد عساف نے کی۔فورم میں  متعدد وزراء، میڈیا سے تعلق رکھنے والی اسلامی اور بین الاقوامی شخصیات،متعدد سفراء،مذہبی، فکری اور انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے علاوہ بین الاقوامی تنظیموں کے رہنما بھی شریک تھے۔
یہ فورم رابطہ عالم اسلامی کے ادارہ جاتی رابطہ کے سیکرٹریٹ اور اسلامی تعاون تنظیم کی نیوز ایجنسیوں کی یونین  جو ایک  خصوصی مستقل ادار ہ ہے ،ان کی باہمی قریبی شراکت داری میں مشترکہ مقاصد کے فریم ورک میں منعقد ہوا ہے۔
فورم کے افتتاحی تقریب کے آغاز میں رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور چیئرمین مسلم علماء کونسل عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمدبن عبد الکریم العیسی نے شرکاء کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاکہ یہ فورم دو بین الاقوامی  اداروں کے زیر اہتمام منعقد ہورہاہے جن میں سے ایک رابطہ عالم اسلامی ہے جس کی نمائندگی ادارہ جاتی رابطہ ایجنسی کررہی ہے اور دوسری اسلامی تعاون تنظیم کی نیوز ایجنسیوں کی  یونین ہے۔
ڈاکٹر العیسی نے کہاکہ  اس کانفرنس کا موضوع ”نفرت اور تشدد کو ہوا دینے میں میڈیا اور اس کا کردار:غلط معلومات اور جانبداری کے خطرات“ زندہ ضمیروں کی توجہ  مبذول اور اس کی عالمی  سنگینی کی ترجمانی کرتے ہوئے بہت سارے عالمی مسائل میں موجودہ چیلنج کو ظاہر کرتاہے۔  جس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ ایک وسیع عنوان ہے جو متعدد محوروں کا نچوڑ ہے۔یہ موضوعات اپنے  طویل مباحثوں کے ساتھ رابطہ عالم اسلامی اور بالعموم بین الاقوامی تنظیموں کا چاہے وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری،ان کے خصوصی  دلچسپی کا حامل  ہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ اس عالمی دلچسپی کے ساتھ  جس نے اس کو اس کی تمام جہتوں کے ساتھ محسوس کیا اور اس کے اثرات کو  اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس  خطرناك عالمی تبدیلی نے  دنیا کو یہ باورکرایاہے کہ مادی سائنسی ترقی کا    اخلاقی ترقی سے اس وقت تک   کوئی تعلق نہیں  ہوتا جب  تک علم کی عظمت اقدار کی  متانت وبردباری سے  ڈھکی ہوئی نہ ہو، تب ہی  انسان علم  واقدار کا مجموعہ بن جاتاہے۔یہی انسانی  ذہن کی تشکیل میں وہ گم شدہ جہت اور غائب  لنک ہے۔
ڈاکٹر العیسی نے نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ عالمی دلچسپی کے باوجود  نفرت کا رجحان ظاہری قانون سازی اور عمل درآ مد میں التوا کی وجہ سے  وبا کی  شکل اختیار کرچکا ہے۔ لہذا  اس کا علاج  ایمانداری اور مؤثر طریقے سے شعوری اجتماعی ارادے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
ڈاکٹر العیسی نے متنبہ کیا کہ اس امر سے  افراتفری اور فکری نادانی کی ایک افسوسناک صورتحال پیدا ہوئی ہے جو مہذب دنیا   كو  دوباره   اس پس ماندہ دور میں لے گئی ہے جہاں ہم  عالمی جنگوں کے بعد اور  عالمی نظام کے بعد   پہنچے تھے جس نے دنیا کی اقوام کو ایک ہی چارٹر کے ساتھ ایک چھتری تلے متحد کیا تھا  ۔
انہوں نے مزیدکہاکہ انسان جانتاہے کہ اس کی اصل ایک ہے ۔جو شخص اپنے رب پر ایمان رکھتاہے،چاہے اس کا مقام،زمانہ  اوردین ومذہب  کچھ  بھی ہو،وہ یہ جانتاہے کہ  وہ آدم اور اس کی زوجہ کی نسل میں سے ہے  ۔ دین اسلام میں اللہ  تعالی کا ارشاد ہے: ” اے ابنِ آدم! “ سب اولادِ آدم ہیں،اور بچے باہم بھائی ہوتے ہیں،چاہے  ان میں مذہب، فکر،رنگ اور مکان کا اختلاف ہو ، مگر پھر بے رخی کا آغاز ہوا،اس کے بعد نفرت،  پھر دشمنی،پھر مقابلہ اور تصادم اور ٹکراؤ کا سلسلہ شروع ہوا۔یہ اس وقت ہوتاہے  جب  کوئی اختلاف جو کسی فرد یا گروہ کے اطمینان اور اس کے ایمانی یا فکری خواہش کی نمائندگی  کرتاہو وہ ایک ایسی تصادم  کی صورت میں تبدیل ہوجائے جسے  ذہنی نادانی کے علاوہ کوئی دوسرا نام دینا ممکن نہیں۔انہوں نے مزیدکہاکہ اسی لئے  اسلام نے آگے بڑھتے ہوئے کہاکہ: ”دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔“ اس لئے کسی کو اس کا مذہب ترک کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور نہ اسے کسی دیگر مذہب کو زبردستی یا ہراساں کرکے اختیار کرنے پر مجبور کیاجاسکتاہے۔
انہوں نے کہاکہ ہماری دنیا کو  نجات کی کشتی کی طرف لے جانے اور اسے خطرات میں ڈوبنے سے  بچانے کے لئے میڈیا کا ایک متوازن اور اہم  کردار ہے، جہاں نفرت انگیز بیانئے میں  تشویشناک اضافہ اور خطرناک معاملات پر اشتعال انگیزی سے  امتیازی سلوک اور تنہا کرنے کی وجہ سے تنازعات،تصادم اور تشدد   جنم لیتے ہیں  ۔اور تاریخ اس کی  گواہ ہے۔
انہوں نے مزیدکہاکہ میں اس موقع پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بلا روک ٹوک نفرت کے اظہار کی اجازت دینے سے زیادہ خطرناک کچھ نہیں ہے۔ اس سے خطرناک کلچر فروغ پائے گا  جو قومی اور عالمی طور پر نفرت کو ہوادے گا۔اس لئے سب کو یہ  بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ  نفرت انگیز بیانئے کا مقابلہ  معاشروں کی امن وسلامتی اور اقوام کے درمیان دوستی کے رشتے کو مستحکم کرنے کے لئے بے حد ضروری ہے۔ اور یہ اقوام کی باہم دوستی  وقت کی ضرورت او ر اہم تقاضہ ہے اور صرف اسی تناظر میں لوگ ایک ساتھ امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتاہے کہ  نفرت کی وجہ سے  پیدا ہونے والی دشمنیوں نے  جنگوں کو جنم دیا، اور یہ نفرت  کسی بھی معاشرے  یا قوم میں پائی جائے تو  وہ   اپنے اور دوسروں کے لئے صرف برائی ہی لاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ اس سب کے باوجود ”مادی روشن خیالی“ اور ”تہذیبی ترقی اپنے مشترکہ تصورات کے ساتھ“اب بھی بہت سارے ذہن اقدار کی پسماندگی کا شکار ہیں،کیونکہ نفرت کا بیانیہ بہت سے ذہنوں اور پالیسیوں پر حاوی ہے ۔انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ  بہت سارے معاملات میں  نفرت اپنی بدترین اور کریہہ صورت میں دوہرے معیارات میں ایسے نمونوں میں نمودار ہوئی جو  تاویل اور چال بازی سے آگے بڑھ کر  چیلنج اور تکبر تک پہنچ گئی ہے۔ 
ڈاکٹر العیسی نے اس بات پر زوردیاکہ  جس طرح  صحت عامہ کے حوالے سے ہماری دنیا احتیاطی تدابیر کےلئے  کوشاں نظر آتی ہے اور جسمانی  صحت کو لاحق خطرات  کے لئے    قبل از وقت انتباہات جاری کرتی ہے،تو  اسی طرح اقوام کی امن وسلامتی  اور معاشروں کی ہم آہنگی  کے لئے احتیاطی تدابیر اور اس کے لئے انتباہات کا اجرا بھی بے حد اہم ہے۔اس لئے نفرت اور اس کے خطرات کا جائزہ لینے کے لئے  مؤثر رصدگاہوں کی ضرورت ہے تاکہ ابتدا سے ہی اس کا  مقابلہ ممکن ہو۔
شیخ العیسی نے کہاکہ آج ہمیں غزہ میں معصوم بچوں،خواتین اور دیگر لوگوں پر مجرمانہ اور وحشیانہ حملوں کی صورت میں جو کچھ نظرآرہاہے، یہ پوری انسانیت کے ماتھے پر ایک داغ ہے۔ 
انہوں نے مزید کہاکہ  یہ انسانی المیہ ہر زندہ ضمیر کے دل میں چبھ رہا ہے ، انصاف اور انسانی حقوق کی منطق تمام مؤثر اور مخلص بین الاقوامی تنوع سے اس کی حمایت کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ اس حقیقت کے علاوہ ہے کہ یہ ہمارے لئے بنیادی طور پر ایک عربی اور  اسلامی مسئلہ ہے۔ پھر  جائز حق کی وجہ سے یہ انصاف  کی تلاش میں عالمی حل طلب مسئلہ ہے جو زیر التوا عالمی قراردادوں کے زیرنگین ہے۔ ان قراردادوں کی خلاف وزری کی  گئی جس کے نتیجے میں خون بہا  اور اس کے نتائج المناک  ہیں۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر العیسی نے رابطہ عالم اسلامی کے نظام کے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے  امت مسلمہ  کے علمائے کرام اور ان کے مفکرین کی جانب سے  مسئلہ فلطسین کی حمایت اور غزہ میں ہونے والے جرائم کے خلاف  کی جانے والی عظیم کاوشوں کو سراہا جن میں مملکت سعودی عرب کی قیادت میں متعدد تاریخی سربراہی اجلاس شامل ہیں۔انہوں نے دعاکرتے ہوئے کہاکہ اللہ تعالی خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود اور ان کے ولی عہد امین اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبد العزیز آل سعود حفظہما اللہ کو ان کاوشوں کےبدلے میں جزائے خیر عطافرمائے۔
اس کے بعد فلسطینی نیوز اینڈ انفارمیشن ایجنسی  کے بورڈ آف ڈائریکٹر  کے چیئرمین اور ریاست فلطسین میں سرکاری میڈیا کے سپروائزر  عزت مآب وزیر احمد العساف نے    سیکرٹری جنرل رابطہ عالم اسلامی اور چیئرمین مسلم علماء کونسل عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی اور اسلامی تعاون تنظیم کی نیوز ایجنسیوں کی یونین  کے ڈائریکٹر جنرل کا اس فورم کے قیام اور انعقاد پر شکریہ  اداکیا۔
العساف نے نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ   یہ فورم ایسے مشکل  حالات میں منعقد ہورہاہے جب  فلسطین  اور خاص طور پر غزہ میں ہمارے لوگ  قتل وخون کا نشانہ بن رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ  اگر غلط معلومات  کی فراہمی یا جانبداری  کے مقابلے کے حوالے سے  میڈیا کے کردار کا جائزہ لیں تو مسئلہ فلسطین سب سے سچی اور واضح مثال ہے،کیونکہ یہ حق اور باطل،حقیقت اور جھوٹ، فریب اور بہتان کے درمیان جنگ کا خلاصہ ہے۔
العساف نے مزیدکہاکہ مسئلہ فلطسین 75 سالوں  اور فلسطین کے عوام اور ان کی سرزمین کے خلاف اس جارحیت کے آغاز سے سے لے کر فلسطینی بیانئے کو   زائل کرنے   کی کوششوں تک  میڈیا کےحملوں کا شکار ہے اور  دنیا کے بڑے ذرائع ابلاغ کے اداروں  کی جانب سے  جانبداری اور غلط معلومات کا سلسلہ جاری ہے،جو سچ کو دیکھنے کے بجائے اسے چھپانے اور مٹانے میں کوشاں ہیں،وہ جب مسئلہ فلسطین پر نظر ڈالتے ہیں تو فلسطینی سرزمین پر ہونے والے جرائم،ظلم وستم، قتل وغارت گری اور تباہی سے  نظریں پھیرلیتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ  صہیونی قبضے کے ساتھ جنگ   کی تاریخ کا  آغاز اس وقت سے ہوتاہے  جب انہوں نے اس بنیاد پر اپنی ریاست بنانے کی کوشش کی کہ فلسطین عوام کے بغیر  ایک  ایسی سرزمین ہے جو ایسی قوم کے لئے ہے جس کے پاس کوئی زمین نہیں ، اور پھر وہ صرف دوسرے بیانئے کی حمایت کے لئے کوشاں نہیں بلکہ  فلسطینی بیانئے کو زائل کرنے کی کوشش میں مصروف ہوئے۔
العساف نے صہیونی قبضے کی حقیقت کو تاریخ مٹانے کی کوشش قراردیا جس کا مطلب حال اور مستقبل کو ختم کرنےکی کوشش ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ ان کا اصل مقصد ہے کیونکہ انہوں نے اس بنیاد پر اپنا بیانیہ بنایا تھا کہ بزرگ قبروں میں چلے جائیں گے اور بچے اس مسئلے کو بھول جائیں گے۔حقیقت میں بزرگ تو چلے گئے مگر بچے اس سرزمین اور اس مسئلے  پر زیادہ مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں۔
العساف نے کہاکہ  میڈیا کا بنیادی مقصد لوگوں میں رواداری،انصاف اور محبت کی ثقافت کو پھیلاناہے۔بحرانوں  کا خاتمہ،تنازعات ،نفرت اور معاشروں کی تقسیم   کو ہوا دینے سے بچاناہے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ  جب چند جانبدار میڈیاگروپس کی جانب سے ان حقائق کو نظرانداز کیا جارہا ہو تو آپ  فلسطینی عوام،یا عرب اور اسلامی برادری سے کس رد عمل کی توقع کرتے ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ان  جھوٹ کو تسلیم کرکے ان المناک حقائق اور قتل عام   کے واقعات سے انکار کیا جائے جو روزانہ غزہ اور قدس میں پیش آرہے ہیں؟ یقینی طور پر نہیں! اور یہ جانبداری یقینی طور پر ان تمام پالیسیوں کے خلاف مزید لوگوں کو مشتعل کرے گا ۔
فورم سے وفاقی جمہوریہ صومالیہ کے وزیر اطلاعات جناب داؤد اویس جامع نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ   فلسطين کے ان واقعات میں  ہم نے میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے کردار کو واضح طور پر جانبدار  پایا  ہے جنہوں نے  معروضیت اور سچائی کو نظر انداز کیا ۔انہوں نے زوردیا کہ اسلامی ممالک کو میڈیا اور اس کے اداروں کے کردار کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس خلا کو پُر کرکے عالمی سطح پر واضح اثر ورسوخ حاصل کیاجاسکے۔
انہوں نے کہاکہ صومالیہ میں دہشت گرد گروہوں اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ اور مذہبی اعتدال پسندی کے فروغ میں میڈیا اہم کردار اداکررہاہے۔
اسلامی تعاون تنظیم کی نیوز ایجنسیوں کی یونین   کے قائمقام ڈائریکٹر جنرل  جناب محمد بن عبد ربہ الیامی نے اس بات پر زوردیا کہ میڈیا  تہذیبی تصورات کی تعمیر،ایک دوسرے  کے بارے میں لوگوں کے عمومی تصورات کی تشکیل اور عالمی مسائل کے بارے میں رائے عامہ کی تشکیل میں مثبت اور منفی دونوں طور پر اہم کردار اداکرتاہے۔
انہوں نے مزیدکہاکہ اس اہم کردار کو اگر بغیر رہنمائی کے چھوڑ دیاجائے تو اس کافائدہ انتہاپسند اور نفرت کے سوداگر مقدسات کی اہانت،تنازعات کو ہوا دینے اور بحران پیدا کرنے کی صورت میں اٹھائیں گے ۔اس تناظر میں ہمارے اس فورم کی اہمیت پوشیدہ ہے  کہ نفرت انگیز بیانئے اور تشدد کے مقابلے  کے لئے میڈیا کے کردار کو فعال کرنے کے لئے بہترین اسالیب  پر تبادلۂ خیال کیا جائے اور اس سلسلے میں عمومی اور رہنما اصول وضع کئے جائیں۔
جناب الیامی نے  نشاندہی کی کہ یہ فورم حالیہ اسرائیلی کشیدگی  کی وجہ سے غزہ  میں فلسطینی عوام کو درپیش المناک حالات اور بڑے پیمانے پر انسانی تباہی  کے دوران منعقد ہورہاہے اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم عالمی میڈیا  کے طور پر  اس ذمہ داری پر غور کریں کہ   ہم کس طرح امن واستحکام کے حصول ، دونوں اطراف کے شہریوں کے تحفظ،فلسطینی عوام کے  جائز حقوق  کی ضمانت  جس میں سب سے اہم ان کی آزاد ریاست کا قیام ہے،ہم کس طرح اپنے اداروں کے کردار کو آگے بڑھاسکتے ہیں۔
محترم الیامی نے  عزت مآب سیکرٹری جنرل شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی کی قیادت میں رابطہ عالم اسلامی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا کہ وہ بین الاقوامی میڈیا  اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کی خواہش رکھتی ہے،یہ محسوس کرتے ہوئے  کہ  اقوام کو  ایک دوسرے کے قریب لانے اور مختلف ثقافتوں اور مذاہب کے درمیان بقائے باہمی اور بھائی چارے کے حصول کے لئے کسی بھی سنجیدہ کوشش اور اقدام میں میڈیا کا مرکزی کردار ہے۔
انہوں نے فورم کی تنظیم اور انعقاد کے سلسلے میں مسلسل دیکھ بھال اور فالو اپ کے لئے ڈاکٹر العیسی کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ اللہ تعالی کی توفیق کے بعد آپ کی عظیم کاوشیں نہ ہوتیں تو اس فورم کا انعقاد ممکن نہ تھا۔
فورم کے افتتاحی سیشن میں فلسطینی علاقوں سے تعلق رکھنے والے متعدد صحافیوں سے براہ راست  رابطہ  قائم کیا گیا جنہوں نے اسرائیلی جارحیت کی روشنی میں صحافتی عمل اور صحافیوں کو درپیش چیلنجز کے بارے میں گفتگو کی۔
سیشن میں رائے عامہ کی تشکیل  اور معاشروں کی بیدار ی میں  میڈیا کے کردار سے متعلق خواہ وہ مثبت ہو یا منفی ایک مختصر فلم کی نمائش بھی شامل تھی۔
اس کے بعد فورم کے مباحثہ سیشن کا سلسلہ جاری ہوا ، پہلے سیشن میں ” میڈیا پلیٹ فارمز پر نفرت انگیز بیانئے اور تشدد کے سدّباب میں مذہبی اداروں اور قیادت کے کردار  “پر تبادلۂ خیال کیا گیا  جبکہ دوسرے سیشن میں ” بین الاقوامی میڈیا میں جانبداری اور غلط معلومات:مسئلہ فلسطین بطور مثال“ پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
تیسرے سیشن میں”عالمی میڈیا میں اخلاقی ذمہ داری“ تبادلۂ خیال کیاگیا جبکہ چوتھے سیشن  میں ”  نفرت انگیز بیانئے اور انتہاپسندی کے سد باب کے لئے عالمی مذہبی میڈیا اتحاد  “پرتبادلۂ خیال کیاگیا۔

 

رابطہ عالم اسلامی نے”فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عالمی دن“کو ایک متنوع بین الاقوامی تحریک کی صورت میں منایا،جس میں اسلامی سفارت کاری کا مظہر روشن تھا۔اس ضمن میں مملکت سعودی عرب کے شہر جدہ میں ایک عالمی فورم کا انعقاد کیا گیا
رابطہ عالم اسلامی نے”فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عالمی دن“کو ایک متنوع بین الاقوامی تحریک کی صورت میں منایا،جس میں اسلامی سفارت کاری کا مظہر روشن تھا۔اس ضمن میں مملکت سعودی عرب کے شہر جدہ میں ایک عالمی فورم کا انعقاد کیا گیا
رابطہ عالم اسلامی نے”فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عالمی دن“کو ایک متنوع بین الاقوامی تحریک کی صورت میں منایا،جس میں اسلامی سفارت کاری کا مظہر روشن تھا۔اس ضمن میں مملکت سعودی عرب کے شہر جدہ میں ایک عالمی فورم کا انعقاد کیا گیا
Thursday, 30 November 2023 - 13:44